HSC SECCAP Admission Policy 2014-15: A story of Corruption and Incompetence

مرکزی  داخلہ پالیسی کی اچانک تبدیلی:  محکمہ تعلیم سندہ میں  کرپشن اور نااہلی کی کہانی

یہ تحریر پیپلز پارٹی سندہ کی زیر نگرانی محکمہ تعلیم  کی کراچی دشمنی پر مبنی داخلہ پالیسی سے متعلق ہے۔ اس تحریر میں یہ کوشش کی گئی ہے کہ اس راز سے پردہ اُٹھایا جائے کہ اس داخلہ پالیسی کے پیچھے کون سے منفی  اور کرپشن کے عوامل پوشیدہ ہیں ۔

یہ ایک آسانی سے سمجھ میں آجانے والا اصول ہے کہ  جب بھی کسی پہلے سے چلنے والی پالیسی کو یکسر مسترد کردیا جاتا ہے  تو اس کے پیچھے عوام الناس میں اس پالیسی کے خلاف بہت ذیادہ شکایات پائی جاتی ہیں یا یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ چلنے والی  پالیسی کچھ افراد کے آپسی کرپشن کو جاری رکھنے  کے لیے بنائی گئی ہے۔ جہاں تک یکسر مسترد کی گئی داخلہ پالیسی کا سوال ہے تو وہ داخلہ پالیسی سن  2000 میں نافذ العمل ہوئی ۔ مستقل 14 سالوں تک چلنے والی مرکزی داخلہ پالیسی اپنے بیشتر مقاصد کو حاصل کرنے میں کامیاب رہی تھی۔  جن میں داخلہ کے عمل کے دوران بہتر تعلیمی قابلیت رکھنے والے طلبا کو اچھے کالجز میں میرٹ پر  ایڈمیشن دینا اور زون کے لحاظ سے ایڈمیشن دینا۔ اس کے علاوہ کالج کے ایڈمیشن میں سیاسی مداخلتوں کو ختم کرنا شامل تھا۔

جب سے محکمہ تعلیم میں سابق صدر جناب آصف علی ذرداری کے بہنوئی سیکریٹری تعلیم بن کر آئے ان کے ساتھ موجود افسران نے مرکزی داخلہ پالیسی کو صرف اس لیے نشانہ بنانا شروع کردیا کہ وہ ایک آذاد کمیٹی کے ذریعے ڈائیریکٹریٹ کالجز کی زیر نگرانی چلائی جارہی تھی۔ اس پورے داخلہ کے عمل میں آنے والے اخراجات کو بھی داخلہ کے عمل میں حاصل ہونے والی آمدنی سے ہی پورا کیا جاتا تھا۔  سندہ دیہی سے کراچی میں تعینات افسران نے ذیادہ سے ذیادہ مال جمع کرنے کی حرص میں اس نظام پر بھی نظریں گاڑ دیں۔ پہلے تو انھوں نے اپنی ہی سطح پر اس نظام میں خامیاں نکالیں اور پھر اس نطام میں ڈائیریکٹریٹ کالجز کے پاس جمع ہونے والے پیسے پر کرپشن کا الزام لگانا شروع کردیا۔ پھر اسی پر بس نہ کیا بلکہ مرکزی داخلہ پالیسی میں پائی جانے والی خامی کو دور کرنے کے بجائے  اس کو یکسر مسترد کرکے راتوں رات ایک نئی داخلہ پالیسی متعارت کرادی۔

اس داخلہ پالیسی کو نافذ کرنے کے دوران محکمہ تعلیم سندہ کے اپنے مروجہ اصولوں یعنی  اگر انٹر میڈیٹ کی داخلہ  پالیسی میں کوئی تبدیلی لائی جائےگی تو اس کو سندہ کے تمام بورڈز  کی اسٹیرنگ کمیٹی  میں پیش کرنا اور وہاں سے اسکی  منظوری ضروری ہے کی صریح” خلاف ورزی کی۔ قارئین کو یہ بات معلوم ہونا چاہیے کہ  14 فروری کو اسٹیرنگ کمیٹی کی میٹنگ ہوئی جس کے منٹس آف میٹنگ 6 مارچ 2014 کو جاری کئیے گئے۔ اس کے نوٹس  میں کہیں بھی داخلہ پالیسی میں تبدیلی سے متعلق کوئی تجویز موجود نہیں تھی جس سے یہ بات  واضع ہوگئی کہ کراچی میں انٹر میڈیٹ کی  داخلہ پالیسی 2014-15 میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی اور داخلے پچھلے سال 2013 کے مطابق ہی کیے جائیں گے۔ محکمہ تعلیم سندہ نے اپنے  ہی بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی  کرتے ہوئے راتوں رات بغیر کسی تیاری کے ایک نئی داخلہ پالیسی نافذ کردی۔  جس کو محکمہ تعلیم سند ہ ای مرکزی داخلہ پروگرام برائے 2014-2015 کا نام دے دیا۔

راتوں رات بغیر تیاری کے نئی داخلہ پالیسی سامنے لائی گئی مگر اس کے لیے داخلہ پراسپیکٹس کی ہدایات میں کوئی تبدیلی نہ کی گئی۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ نئی پالیسی نافذ تو کردی گئی لیکن جو پراسپیکٹس دیا گیا وہ پرانی داخلہ پالیسی کے صرف 4 لائینوں کو تبدیل کرکے جاری کردیا گیا۔ نتیجہ نئی پالیسی کے لیے طلبہ و طالبات کے لیے کہیں کوئی ہدایات دی ہی نہیں گئیں۔ پراسپیکٹس میں نئی داخلہ پالیسی کے مطابق کوئی تبدیلی نہ کرنا ہی اس بات کی بہت بڑی نشانی ہے کہ محکمہ تعلیم سندہ بذات خود اس تبدیلی کے لیے تیار نہ تھا ۔ نئی داخلہ پالیسی کے براہ راست نقصانات اور کرپشن کے نتائج درج ذیل ہیں۔

اس داخلہ پالیسی سے کراچی میں انٹر کے طلبہ و طالبات کو جو نقصان پہنچا اس کا سب سے پہلا اثر ان کے تعلیم سال کی مدت کا ہے۔ گذشتہ سال 2013 کی مرکزی داخلہ پالیسی کی فہرستیں 5 ستمبر تک جاری کردی گئیں تھیں اور تمام کالجز میں داخلے کا عمل مکمل کرکے 15 ستمبر سے باقاعدہ کلاسیں شروع کردی گئی تھیں۔ محکمہ تعلیم سندہ کی جانب سے 2014 کی داخلہ پالیسی کے مطابق فہرستیں ستمبر کے آخری ہفتے میں جاری کی گئیں اور وہ بھی غلطیوں سے بھری ہوئی ۔ اس کے باعث اکتوبر میں بھی داخلے کا عمل جاری ہے اور یہ داخلے اکتوبر کے مہینے میں جاری رہیں گے۔ اس کا مطلب داخلے کے بعد باقاعدہ کلاسیں اکتوبر کے آخری ہفتے میں یا پھر نومبر کے پہلے ہفتے میں شروع ہوں گی۔ یعنی اب طلبہ و طالبا ت کے پاس اپنے سلیبس کو مکمل کرنے اور امتحان میں جانے کے لیے صرف  4 ست 5 مہینے کا وقت بچے گا۔ اس نقصان کا ذمہ دار کون ہوگا۔  بہت شور مچانے پر وزیر تعلیم نے اپنے آپ کو تعلیم یافتہ ہونے کا ثبوت  ایک دور کی کوڑی لاکر دیا اور فرما دیا  کہ کالج میں آدھے گھنٹے کے اضافے سے اس نقصان کو پورا کیا جائے گا۔ اب آپ بھی سمجھ سکتے ہیں کہ وزیر تعلیم کراچی کے طلبہ کی تعلیم سے کتنے مخلص ہیں اور کتنا انوکھا حل تجویز کیا ہے انھوں نے!

مرکزی داخلہ پالیسی میں ایک لاکھ تین ہزار کے قریب داخلہ سیٹیں مقرر کی گئی تھیں جبکہ طلبہ و طالبات جو داخلہ فارم جمع کرنے میں کامیاب ہوئے انکی پوری تعداد 65 ہزار آن لائیں اور 25000 فارم بھر کر داخل کروائے گئے اس طرح ٹوٹل فارم جو جمع کروائے گئے وہ 90 ہزار کے قریب ہیں یعنی 15000 طلبہ و طالبات فارم جمع کرانے سے رہ گئے اور نتیجہ بغیر تیاری کے نئی داخلہ پالیسی کے نفاذ نے 15000بچوں کا مستقبل تاریک کردیا۔

محکمہ تعلیم کی نئی داخلہ پالیسی کی ناکامی اور والدین و طلبہ و طالبات کے لیے مشکلات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس پالیسی کے تحت ڈیڈ لائین 18 اگست دی گئی ، پھر اس کو بڑھا کر 22 اگست کیا گیا، پھر مذید بڑھا کر 25 اگست اور اس میں بھی فارم کی مقررہ تعداد جمع نہ ہونے کی صورت میں ڈیڈ لائین کو مذید بڑھایا گیا۔ اس ڈیڈ لائین کو مذید بڑھا کر 28 اگست پھر آخر میں 2 ستمبر کیا گیا۔ اتنے بار ڈیڈ لائین کو تبدیل کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ نئی داخلہ پالیسی طلبہ دشمن اور والدین کے لیے نہایت اذیت کا باعث رہا ہے اور آخر وقت تک طلبہ و طالبات ا ور انکے والدین اس داخلہ پالیسی کو سمجھنے سے ہی قاصر رہے۔

اورنگی ، کورنگی ، ملیر اور لانڈھی کے بچوں نے 25000 فارم جو بنکوں سے حاصل کئے گئے تھے میں سے 15000 فارم جمع کروائے یعنی آن لائن فارم یہاں کے بچوں کے لیے بالکل بے کار تھے اور ان طلبہ و طالبات کو اپنے فارم ہاتھ سے بھر کر ہی جمع کروانے پڑے۔

اس داخلہ پالیسی میں طلبہ کو مجبور کیا گیا کہ وہ ایک غیر معروف بینک ” سندہ بینک” میں اپنے آن لائین فارم کی کاپی جمع کروائیں اور وہیں اپنی فیس بھی دیں۔ چونکہ سندہ بینک کی  کراچی میں صرف 58 شاخیں ہیں وہ بھی کچھ ایسی جگہوں پر جن کے بارے میں عام لوگوں کو پتہ بھی نہیں ہے اور اس بینک میں اسٹاف بھی اس ایک لاکھ فارم وصول کرنے کے لیے موجود نہیں تھا اس وجہ سے طلبہ اور انکے والدین کو شدید اذیت کا سامنا کرنا پڑا۔  ان کی مقررہ فیس 60 روپے تھی جبکہ کاوئنٹر پر ان سے 150 سے 200 روپے تک لیے گئے۔ اب آپ سوچ لیں کہ ایک ہی بینک میں ایک لاکھ بچوں سے کاونٹر پر اگر صرف 100 روپے ہی زائدلیے گئے ہیں تو تقریبا” ایک کڑوڑ روپے جو جمع کیے گئے وہ کن لوگوں کی جیبوں میں گئے۔ آخر سندہ بینک کو اتنی بڑی رقم جمع کروانے کے لیے کتنے پیسے رشوت کے طور پر حاصل کیے گئے ہوں، تیسری اہم بات صوبے میں سندہ بینک سے ذیادہ بہتر اسٹاف اور کارکردگی والے بینک موجود تھے تو سندہ بینک کو اتنی بڑی ذمہ داری دیکر طلبہ و طالبات اور انکے والدین کو اذیت دینے کے پیچھے کیا راز کار فرما ہوسکتا ہے؟

مرکزی داخلہ پالیسی 2013 تک طلبہ پراسپیکٹس خریدتے اور اپنی فیس بینک میں جمع کروادیتے تھے جہاں سے فارم مرکزی داخلہ کمیٹی چلا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ کوئی اضافی اخراجات نہ تھے۔ اب کراچی کے طلبہ کو مجبور کیا گیا کہ وہ آن لائین داخلہ فارم جمع کریں۔ اس شہر میں کتنے بچوں کے پاس گھر پر انٹر نیٹ کی سہولت میسر ہے اس کا ادراک قارئین کو بھی ہوگا، اور جس طرح سے نیٹ کیفے اخلاق باختہ کرنے  والے معاملات میں ملوث رہے ہیں ۔  طلبہ و طالبات کو  کو مجبور کیا گیا کہ وہ وہاں جائیں  اور وہاں سے اپنے تمام تر کوائف بھریں یعنی اپنے گھر کا فون نمبر سے لیکر ہر چیز نیٹ کیفے جو ہر طرح کے بلیک میل کے لیے مشہور ہیں کے حوالے کردئیے جائیں۔

مرکزی داخلہ پالیسی کے لیے جو پیج متعارف کروایا گیا اس کا عالم یہ تھا کہ جب بڑی تعداد میں طلبہ نے اس سائیٹ سے اپنے کوائف دردج کروانے کی کوشش کی تو یہ سائیٹ کریش کرگئی اور اس کے بعد کئی دنوں تک اس کو دوبارہ طلبہ و طالبات کے لیے قابل رسائی نہ کروایا جاسکا۔ نتیجہ والدین کے لیے اذیت اور ہر دن ڈیڈ لائین کے قریب آنے کی صورت میں طلبہ کے لیے مایوسی۔

مرکزی داخلہ پالیسی 2014 میں دوسرے بورڈ اور نظام تعلیم کے لیے کوئی وضاحت نہ تھی جیسا کہ داخلہ پالیسی برائے 2013 تک میں باقاعدہ فارمولہ تک موجود تھا۔ نتیجہ او لیول کے بچے مستقل اس بات کے لیے پریشان رہے کہ ان کا ایکویویلنس فارمولہ کیا ہوگا۔ آن لائین فارم کو بھرتے ہوئے ایسی کوئی ہدایت موجود ہی نہیں تھی۔

آن لائین فارم جمع کروانے میں ناکامی پر طلبہ کو یہ بتایا گیا کہ وہ بینک سے پراسپیکٹس اور فارم حاصل کرسکتے ہیں لیکن جب وہ بینک جاتے تو انھیں مختلف بہانوں سے پریشان کیا جاتا تاکہ وہ واپس جائیں اور کریش سائیٹ ہی کے دوبارہ کھلنے کا انتظار کریں۔ جس سے طالبات اور انکے والدین کو بے پناہ پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ اگر بینکوں میں فارم کی صحیح تعداد اور سہولت دے دی جاتی تو وہ 15000 طلبہ و طالبات جو فارم جمع نہیں کروا پائے انکا مستقبل تاریک ہونے سے بچ جاتا۔
جب اس داخلہ پالیسی کے تحت فارم جمع ہوگئے اور لسٹیں جاری ہوئیں تو وہ خامیوں سے بھری ہوئی تھیں اور ایک بہت بڑی تعداد میں طلبہ کے نام اس میں نہ تھے جس پر کئی دنوں تک تو محکمہ تعلیم کے افسران خاموش رہے مگر بعد میں دباو بڑھ جانے سے اچانک 15 مختلف کمپلین سینٹر کا اعلان کردیا۔ جب طلبہ ان جگہوں پر گئے تو ان سینٹروں کے پرنسپل تک کو یہ معلوم نہیں تھا کہ انھیں کیا کرنا ہے اور اس میں بھی دو دن لگے جس کے بعد وہ کمپلین سینٹر فعال ہوئے ۔ یہ کمپلین سیٹر تعدا د میں کم اور جن جگہوں پر طلبہ کو ذیادہ شکایتیں تھیں ان علاقوں میں قائم نہیں کئے گئے۔ مثلا” ملیر ، لانڈھی اور اورنگی میں کوئی ایک بھی کمپلین سینٹر قائم نہیں کیا گیا۔

اس تمام عرصے میں محکمہ تعلیم سندہ کے سیکریٹری امریکہ یاترا پر رہے اور ان کے ویب سائیٹ پر دئیے گئے ای میل کو لکھے گئے تمام کمپلین میں سے کسی ایک پر بھی جواب نہیں دیا گیا ۔ اس پیج پر کوئی فون نمبر یا فیکس نمبر نہیں دیا گیا ۔ یعنی طلبہ و طالبات کو اس پورے عرصے میں ان کی پریشانیوں پر جواب دینے والا کوئی موجود نہ رہا ۔ وہ اپنی ہی سطح پر ایک دوسرے سے پوچھ پوچھ کر اپنی پریشانیوں کو کم کرنے کی کوشش کرتے رہے۔

کراچی میں طلبہ و طالبات کی پریشانیوں کو دیکھتے ہوئے متحدہ قومی مومنٹ کی صوبائی اسمبلی کے ارکان کی جانب سے سید سردار احمد نے سندہ اسمبلی میں ایک ایڈجرنمنٹ موشن جمع کروایا۔ جس میں یہ بتا یا گیا  کہ محکمہ تعلیم سندہ کی جانب سے نافذ کیا جانے والی داخلہ پالیسی خامیوں سے بھری ہوئی اور والدین و طلبہ دونوں کے لیے اذیت کا باعث ہے۔  ایڈجرنمنٹ موشن جمع کروانے کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے سید سردار احمد نے بتایا کہ یہ داخلہ پالیسی کراچی کے طلبہ کے ساتھ دشمنی کی تازہ مثال ہے۔ خواجہ اظہار الحسن کا کہنا تھا کہ میٹرک پاس طلبہ سے یہ توقع کرنا کہ وہ اپنے داخلہ فارم کو آن لائین بھریں گے جبکہ ذیادہ تر طلبہ انٹر نیٹ کی سہولت سے بھی محروم ہیں کے ساتھ سراسر ذیادتی ہے۔

نئی پالیسی میں فارم اور تمام تر قوائد و ضوابط تقریبا” وہی ہیں جو پچھلی مرکزی داخلہ پالیسی میں تھی یعنی طلبہ و طالبات کو وہی فارم اب ذیادہ مشکل طریقے سے بھرنا پڑا۔ آخر داخلہ فارم میں کوئی تبدیلی نہیں ہے تو پھر طلبہ کو اتنے بڑے مسئلے سے گذارنے اور انکے تعلیم سال کو مثاثر کرنے کے پیچھے کیا مقاصد کار فرما ہوسکتے ہیں یہ بھی ایک سوالیہ نشان ہے؟
ایک اہم امر یہ ہے کہ کراچی میں اوپن میرٹ پر یونیورسٹی میں داخلہ پالیسی متعارف کروانے کے بعد دیہی سندہ کے طلبہ نے میرٹ پر داخلہ میں کامیابی حاصل نہیں کی ہے ۔ لگتا ایسا ہے کہ کوٹہ سسٹم کی طرح کارکردگی بڑھانے کی کوشش کرنے کے بجائے سندہ دیہی کے حکمرانوں نے کراچی میں طلبہ کا تعلیمی سال ہی خراب کرنے کا فارمولہ طے کیا اور اسی کے تحت ایسی داخلہ پالیسی مرتب کی جس سے انکے تعلیمی سرگرمی متاثر ہوجائے۔ کراچی دشمنی پر مبنی یہ پالیسی انکے ذہنی دیوالیہ پن کی ایک اور مثال ہے۔

اس پورے عمل کے دوران بے پناہ پیسہ اکٹھا کیا گیا وہ پیسہ کس اب کہاں خرچ ہوگا اور کیا اس کی مانیٹرنگ کے لیے کوئی نظام موجود ہوگا۔
حل کیا ہے؟

یہ تو اب قارئین سوچیں کہ شہری سندہ پر دیہی سندہ کے افسران کی اجارہ داری اگر اسی طرح جاری رہی تو پھر سندہ شہری میں رہنے والے مختلف زبانیں بولنے والوں کی اولادوں کا تعلیم مستقبل کیا ہوگا، کیونکہ یہ کرپشن اور نااہلی کا داستان صرف انٹر کے داخلہ پالیسی تک محدود نہیں ہے بلکہ اب یہ شہری سندہ کی یونیورسٹیوں تک پھیل چکا ہے۔ اپنی بچوں کے مستقبل کی بقاء کے لیے تمام قومیتوں کو جو شہری سندہ میں رہتی ہیں سندہ کو انتظامی طور پر تقسیم کرنے کے  کے لیے آواز بلند کرنا ہوگا۔
Powered by Blogger.